وہ پارسائی کے بھیس میں بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے کا دعویدار ہے،لیکن خود خدا کے ایک بندے کا ذہنی،روحانی اور فکری غلام ہے.
اس نابغہ ء روزگار شخصیت کی تصنیف شدہ چند کتابوں،ان کے بیان کیے ہوئے چند خطبات اور ان کے بولے ہوئے چند الفاظ کو حرف آخر سمجھتا ہے،اس میں کسی قسم کی تخفیف یا تحریف کا قائل نہیں .
وہ پارسائی کا روپ دھارے پرہیزگاری کے زعم میں مبتلا ہو کر بغیر کسی ثبوت کے کسی کو بھی کسی وقت بے ضمیر،مفاد پرست،دہریہ اور فاسق فاجر قرار دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے،اور اس تصور کو نیک نیتی پر مبنی قرار دیتا ہے.
وہ پارسائی کے حلیے میں اپنے خیالات و نظریات کو مضبوط اساس فراہم کرنے کے لیے’’شاہِ کلید‘‘ کے جا بجا حوالے دیتا نظر آتا ہے بلکہ اس پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہوئے دوسروں کو اس کے حوالے دینے سے منع کرتا ہے.
وہ پارسائی کی شکل اپناتے ہوئے اپنے مکتبہ فکر کو صالحین جبکہ دیگر مکاتب فکر کو غیر صالحین تصور کرتا ہے،تاہم اہل نظر کو وہ نارسائی کو شکار دکھائی دیتا ہے.