ادارہ ادب افروز کے زیر اہتمام ’تاریخ جہلم‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر ڈاکٹر غافر شہزاد اپنے قلم سے مورخ جہلم انجم سلطان شہباز کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں،
انجم سلطان شہباز کا تعلق دریائے جہلم کے کنارے آباد ایک بستی نروال سے ہے جہاں آپ کے دادا الحاج میاں عالم آباد ہوئے۔آپ نے جہلم کے اسکولوں سے ہی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ساری عمر جہلم میں ہی مختلف اسکولوں میں درس و تدریس سے وابستگی میں گزری اور آخری عمر میں گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول سے ریٹائر ہوئے۔آپ شاعر بھی ہیں مگر آپ کا اصل کام تحقیق اور تصنیف سے متعلق ہے۔ جہلم کے اولیا، اقوام، شخصیات، کے علاوہ آپ نے جہلم، روہتاس، پوٹھو ہار، کشمیر، شیر شاہ سوری،سکندر اعظم و دیگر تواریخ پر ایک سو سے زائد کتب تصنیف کیں۔تراجم کا کام بھی نہایت ذمہ داری سے کیا۔ اخبارات میں کالم لکھے، مضامین لکھے، کئی اخبارات کے ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر رہے، گویا تمام عمر لکھنے، پڑھنے اور تصنیف و تالیف میں ہی گزار دی۔
انجم سلطان شہباز کی ’’تاریخ جہلم‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب حال ہی میں شایع ہوئی تو جہلم کی نمائندہ علمی و ادبی تنظیم’’ادارہ ادب افروز‘‘کے زیر اہتمام ’’تاریخ جہلم‘‘ کی تقریب رونمائی دینہ کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کی صدارت کااعزاز راقم الحروف کو حاصل ہوا۔ اس تقریب کے انعقاد میں جہلم سے تعلق رکھنے والی شاعرہ عاصمہ ناز اور امجد میر کو جاتا ہے۔ عاصمہ ناز کا تعلق اگر چہ لاہور سے ہے مگر وہ جہلم میں شادی کے بعد مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئی ہیں۔ سلسلہ وہاٹس گروپ ’’ادب افروز‘‘ سے آغاز ہوا جس میں عاصمہ ناز کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد تو تعزیتی ریفرنس سب ہی منعقد کرتے ہیں اور اس دنیا سے چلے جانے والوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اُن کی زندگی میں اُن کی آنکھوں کے سامنے ہی ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے اور وہ اسی جذبے سے سرشار امجد میر صاحب کے ساتھ انجم سلطان شہباز سے ملنے اُن کے گھر گئیں کہ جب ان کی کتاب ’’تاریخ جہلم‘‘ شایع ہوئی۔ کتاب کی اشاعت تو ایک بہانہ بنی اور جب عاصمہ ناز اورامجد میر نے دیکھا کہ انجم سلطان شہباز تو سخت علیل ہیں اور وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں، اور نام سے زیادہ انہیں اس وقت اپنے علاج کے لیے مالی معاونت چاہئے۔تب انہوں نے سوچا کہ اگر کتاب کی تقریب رونمائی ہو جائے، انجم سلطان شہباز کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف بھی ہو جائے گا اور وہاں کتابوں کی فروخت کے بعد ان کو علاج کے لیے کچھ رقم بھی فراہم ہو جائے گی۔
تقریب کے مہمانان خصوصی دینہ کی معروف سماجی شخصیت اوررکن پنجاب اسمبلی جناب مہر محمد فیاض اور چیئرمین بلدیہ دینہ جناب میاں محمد عاشق تھے۔نظامت کے فرائض قمر صدیقی نے احسن طریق سے سرانجام دئیے جب کہ نعت تنویر کیانی نے پیش کی۔ جہلم کے حوالے سے لکھی جانے والی اقبال کوثر اور نور محمد نفیر کی نظمیں بھی تحت اللفظ پیش کی گئیں۔ انجم سلطان شہباز اور تاریخ جہلم کے حوالے سے گفتگو کرنے والوں میں احسان شاکر، عاصمہ ناز، وسیم قریشی،امجد میر، مرزا سکندر بیگ، سید انصر، قمر رضا شہزاد، ارشاد حسین ارشاد، ارشد علی، میاں محمد عاشق چیئرمیں بلدیہ دینہ، مہر محمد فیاض رکن صوبائی اسمبلی اور راقم الحروف شامل تھے۔
گفتگو کرنے والوں نے ایک جانب صاحب کتاب اور دوسری جانب کتاب مذکور کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ میاں محمد عاشق چیئرمین بلدیہ دینہ نے فوری طور پر ایک سو کتابیں پوری قیمت پر خریدنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس کے بعد اور بھی کتابیں خریدی جائیں گی۔ مہر محمد فیاض نے حکومتی سطح پر انجم سلطان شہباز کے علاج کے لیے انتظامات کی سنجیدہ کوششوں کا وعدہ کیا اور یقین دہانی کروائی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے خصوصی منظوری لی جائے گی۔
راقم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق اگرچہ جہلم سے ہے مگر میں نے لاہور کی تاریخ، گھروں، گلیوں، دروازوں، مساجد، میناروں اور مزاروں پر تحقیقی کام کیا ہے۔ کئی بار دل میں آتا ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں جہلم کی تاریخ کے حوالے سے کچھ لکھوں گا اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کام کو آگے لے کر چلوں گا۔ مگر عاصمہ ناز نے جس طرح لاہور سے جہلم جا کر ’تاریخ جہلم‘‘ جیسی عظیم کتاب کی تقریب رونمائی کی، اسی طرح میں نے جہلم سے لاہور آکر ان کے شہر کے لیے کام کیا، ایک لحاظ سے یہ بات مجھے اچھی لگی مگر پھر بھی میرا وعدہ ہے کہ میں جہلم کے حوالے سے تحقیقی کام ضرور کروں گا۔
گورنمنٹ کالج جہلم سے ایف ایس سی کرنے کے بعد جب میں انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخل ہوا، فرسٹ ائیر کی ایک کلاس میں میڈم نیلم نازنے جب سب طالب علموں سے پوچھا کہ کون کون سے شہر سے تعلق ہے، میں نے جب بتایا کہ میرا تعلق جہلم سے ہے تو انہوں نے پوچھا کیا مجھے قلعہ روہتاس کے بارے میں کچھ علم ہے؟ میں نے انکار میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا کہ اس بارجب میں جہلم جاؤں تو قلعہ روہتاس پر ایک اسائنمنٹ کر کے لاؤں۔ یہ میرا پہلا تعارف تھا جہلم کے تاریخی آثار سے۔ یوں میری تاریخ اور عمارات سے دلچسپی پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں میں نے تاریخ و طرز تعمیر پر دو درجن کے قریب کتابیں لکھیں۔ مگر انجم سلطان شہبازنے اپنی زندگی جہلم کی بستیوں اور آثار کی خاک چھانتے ہوئے ہی گزار دی۔ وہ رات دن کام کرتا رہا، کبھی قبیلوں اور قوموں پر تحقیقی کر کے کتابیں لے آیا اور کبھی جہلم سے جڑی تاریخی شخصیات کے حوالے سے اس نے بہت سی اہم معلومات کتابی صورت میں اکٹھی کیں۔میں جب لاہور میں بتاتا ہوں میرا تعلق جہلم سے ہے تو لوگ پوچھتے ہیں وہاں ٹلہ جوگیاں ہیں جو ہندو شاہیہ عہد کے آثار اور تاریخ و تہذیب کے نمونے آج بھی اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے ہے۔ لوگ جہلم میں پیدا ہونے والے اور پھر اسی سرزمین میں دفن ہونے والے میاں محمد بخش اور اس کی تصنیف سیف الملوک کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں۔ وہ سلمان پارس اور یہاں لگنے والے سالانہ میلے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ وہ سکندر اعظم کی یادگار اور اس کی راجہ پورس کے ساتھ لڑائی کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں، ان کی دلچسپی قلعہ نندنہ اور مقبرہ شہاب الدین غوری کے بارے میں بھی ہوتی ہے۔ وہ خداداد خان پہلے وکٹویہ کراس حاصل کرنے والے،ہندی فلم انڈسٹری کے بڑے نام گلزار،سنیل دت،درشن سنگھ آوارہ،میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر، سید ضمیر جعفری، تنویر سپرا، اقبال کوثر، جوگی جہلمی،سید علی عباس جلالپوری، جیسی معروف شخصیات کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ان سب کا تعلق جہلم سے تھا۔ تب میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں ایسی سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں کہ جہاں سے ایسے ایسے نامو ر اور معروف لوگوں نے جنم لیا۔مجھے تب شرمندگی کا سامنا ہوتا تھا کہ جب میں پوچھنے والوں کو ان کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا تھا مگر انجم سلطان شہبازکی ’’تاریخ جہلم‘‘ کی اشاعت کے بعد اب مجھے شرمندگی نہیں ہوتی بل کہ میں لوگوں کو بغیر پوچھے جہلم کی دھرتی کے ان نامور لوگوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ سب انجم سلطان شہباز کی عمر بھر کی تحقیق اور محنت کے بعد ممکن ہوا۔ انجم سلطان شہباز نے نہایت عرق ریزی، محنت اور تلاش کے بعد یہ ساری باتیں ایک کتاب میں قلم بند کر دی ہیں۔
کتاب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اختلافات رکھنے والے لوگ کہ جو نجی محفلوں میں ایک ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، یہاں اس کتاب میں انجم سلطان شہباز نے جو جہان آباد کیا ہے، اس کتاب کے صفحات پر یہ تمام لوگ ایک جگہ، بعض اوقات تو ایک صفحہ پر موجود ہیں۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ انجم سلطان شہباز نے نہایت غیر جانب داری اور غیر متعصبانہ رویہ اپناتے ہوئے یہ کتاب تصنیف کی ہے۔اس نے کئی صدیاں پہلے انتقال کر جانے والوں،آج کے دن میں زندہ لوگوں اور یہاں کی نئی پرانی عمارات کی تاریخ کو ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا ہے، گویا اس نے زمان و مکان کے فاصلے اور دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب کسی میوزیم سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ انجم سلطان شہبازکے لفظوں میں تاثیر ہے، اس کے جملے اپنی گرفت کے حصار میں لیتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کا سچا اور کھرا ہونا ہے۔ انجم سلطان شہباز نے اگر کہیں سے کچھ اکتساب کیا ہے تو اس نے اس کتاب اور مصنف کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وہ معلومات اور تاریخ کے بنیادی مآخذ تک بھی پہنچا ہے۔ اور یہی اس کا اصل کام ہے جو اسے اس کام کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ کتاب میں نہایت تفصیل کے ساتھ ضلع جہلم کی عہد بہ عہد تاریخ، یہاں کے علاقوں، گاؤں، خاندانوں، ذاتوں، تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر،اولیا اکرام، علما اکرام،سیاسی و سماجی شخصیات، سخنوران جہلم، جہلم کے فنکاروں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ 1100 سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جہلم سے تعلق رکھنے والے ہر حوالے کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ یہ نہایت تھکا دینے والا، مشکل اور بوریت کا شکار کر دینے والا تصنیفی و تالیفی کام تھا مگر اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انجم سلطان شہباز کی عمر بھر کی یہی کمائی ہے اور وہ جس پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہے اور ہمارے لیے بھی اس کا ہمارے درمیان ہونا باعث عزو شرف ہے۔ گردوں کی غیر فعالیت کے سبب ہونے والی بیماری اور کسلمندی کے باوجود وہ اپنی کتابوں پر نظر ثانی کر رہا ہے، اس نے خود کو مصروف رکھا ہوا ہے، وہ اپنی تخلیقی قوت کے بل بوتے پر اپنی خوفناک جان لیوا بیماری سے لڑ رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی زندگی کا چراغ کسی وقت بھی بجھ سکتا ہے مگر جب تک یہ چراغ روشن ہے، وہ اس سے روشنی بکھیرنا چاہتا ہے، دوسروں کے دلوں اور دماغوں کا منور کرنا چاہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ موت کے بعد اصل حیات شروع ہوتی ہے اور وہ اپنی اس اصل حیات کی جانب دن بدن بڑھ رہا ہے، بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی تاسف کے، اس لیے کہ اس نے صدیوں کی تاریخ کا سفر اپنے اندر انڈیل کر موت اور زندگی کی حقیقت کو پا لیا ہے۔اسی لیے تو وہ کہتا ہے؛
چراغوں کی لپکتی روشنی میں ڈر نہیں دیکھا
ہواؤں نے ابھی شاید تمھارا گھر نہیں دیکھا