یہ کہاوت تو سب نے سنی ہو گی کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اور اسکے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
اسکا مشاہدہ تو کم و بیش اکثر لوگوں کو ہاتا رہتا ہے۔جو اقتدار میں آکر طاقتور بنتے اوربے پناہ اختیارات کا مرکزو محور گردانے جاتے ہیں اقتدار سے علیحدگی کے بعد انکا حال ایسا ہوتا ہے کہ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘۔ لگتا ہے آئندہ متوقع انتخابات جہلم میں بڑے معرکتہ الارا ہوں گے.
جن میں مسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی مقابلے کی دوڑ میں جبکہ پی پی پی اپنے ’’ تیر‘‘ جبکہ بچی کھچی ق لیگ اپنے ’’ ہنر ‘‘ آز مائے گی۔ بارہ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل آبادی کا یہ تاریخ سازضلع جو دنیا کے نامور سپہ سالاروں کے جوہر تیغ کا چشم دید گواہ بھی ہے میدان سیاست میں بھی اپنا لوہا منواتا ہے ۔عام انتخابات سمیت کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیاتی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے ایک ضمنی انتخاب میں سویپ سویپ کرنے والی جماعت ن لیگ میں بھی دھڑے بندیاں اور ٹکٹوں کے امیدوار نئے ’’ بندے‘‘سامنے آ رہے ہیں حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ کچھ ’’ انہونیاں‘‘ ضرور ہوں گی چونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں اس لئے کچھ نہیں کہا جاسکتاسیاست کے بارے میں ایک اور بڑی بات مشہور ہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں .
متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حلیف جنکے درمیان بہت سی چیزیں، پارٹیاں اور قدریں مشترک ہوتی ہیں ان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حلیف نہیں بلکہ حریف بن جاتے ہیں۔ کل تک جو ایک دوسرے کے خلاف جوتیوں میں دال بانٹا کرتے تھے آج باہم شیروشکر ہونے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔جہلم کے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے چار کی بجائے متوقع تین رہ جانے والے انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی ایک فوج ظفر موج نظر آ رہی ہے۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں بالعموم اور پی ٹی آئی میں بالخصوص ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی اپنی جماعتوں میں ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا مقابلہ جاری ہے۔
قومی اسمبلی کے موجودہ حلقہ این اے 62 میں مسلم لیگ ن کے چوہدری خادم حسین نے ایک لاکھ بائیس ہزارتیس(102230 (ووٹ لیکر ق لیگ کے چوہدری فرخ الطاف کو انکے حاصل کردہ چھتیس ہزار آٹھ سو بیالیس (36842) ووٹ کے مقابلے میں پینسٹھ ہزارتین سو اٹھاسی(65388) سے شکست دی جبکہ پی ٹی آئی کے چوہدری ثقلین کو انکے حاصل کردہ با سٹھ ہزار آٹھ سو اسی ووٹ کت مقابلے میں انتالیس ہزار تین سو نوے(39390) ووٹ سے اور پی پی پی کے راجہ محمد افضل کو ان کے حاصلکردہ آٹھ ہزار ایک سو چھیاسی ووٹ کے مقابلے میں چورانوے ہزار چوتالیس(94044)ووٹوں سے عبرتناک شکست دی ۔
مجموعی طور پر اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اپنے مد مقابل گیارہ امیدواروں کوشکست دیکر فتح حاصل کی تھی۔ ایک بات اظہر المن شمس ہے کہ اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کا دھڑوں کے مقابلے میں نظریاتی ووٹ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اسی وجہ سے یہ حلقہ ن لیگ کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی نے اس حلقہ میں اپنے سابقہ امیدوار چوہدری ثقلین کو برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے ۔جبکہ ق لیگ کے سابق امیدوار اور پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان فواد چوہدری کے چچا زاد چوہدری فرخ الطاف بھی اسی حلقے سے انتخاب لڑنے کی خاطر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں اگر پی ٹی آئی چوہدری ثقلین کو اپنا امیدوار برقرار رکھتی ہے تو پھر چوہدری فرخ الطاف کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اور اگر چوہدری ثقلین کو نظر انداز کیا گیا تو پی ٹی آئی کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے اس حلقہ میں مذکورہ دونوں امیدوار اپنے اپنے تائیں ٹکٹ ہولڈر ہونے کے دعویدار اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے درپے ہیں۔
مسلم لیگ ن جو اس حلقہ کی فاتح جماعت نے نے ابھی تک اس حلقہ میں اپنے ٹکٹ ہولڈر کی ہوا نہیں لگنے دی مگر ٹکٹ کے امیدواروں میں موجودہ ایم پی اے مہر محمد فیاض اور ایک سابق عسکری جرنل ڈاکٹر اظہر محمود کیانی کے ناموں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ تاہم قرعہ گھرمالہ خاندان اور مہر فیاض کے درمیان نکلنے کی توقع ہے اگر کسی سیاسی آشیر باد سے ان امیدواروں کو نظر انداز کر کے ن لیگی قیادت سابق جنرل اظہر کیانی کو ٹکٹ کا لارا لگاتی ہے تو پھر ن لیگ کو ضلع کونسل کے انتخابات میں ن لیگی امیدوار کی شکست کو مد نظر رکھتے ہوئے ن لیگ باغی گروپ کی مخالفت کا بوجھ برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔موجودہ حلقہ این اے 62جو مسلم لیگ ن کا مضبوط ترین حلقہ گردانا جاتا ہے میں آئندہ انتخابات میں فتح برقرار رکھنے کے لئے ن لیگی قیادت کی امیدوار کے چناؤ میں غیر معمولی دلچسپی اور سیاسی فہم و فراست کا امتحان ثابت ہو گی۔
اس حلقہ میں اصل دنگل ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین ہی ہو گا جسکی فتح کے لئے دونوں جماعتیں اور انکے امیدوار ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ تاہم امیدواروں کے چناؤ کے مرحلے کے بعد فتح و شکست کا تقابلی جائزہ سامنے آئے گا ۔ امیدواروں کے چناؤ میں کسی بھی جماعت کی معمولی سی سیاسی غلطی اس حلقہ اسکی عبرتناک شکست کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔