محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر کو کسی نے ایک فقرہ دم کر کے دیا ہوا ہے کہ صبح ہو یا شام،دن ہو یا رات،صحیح ہو یا غلط،بس آپ موقع دیکھ کر ہر جگہ کہہ دیا کریں کہ ” لاہور چلے جاؤِِ”
آپ ان کے پاس کسی ٹیچر کی شکایت لے کر جائیں تو یہ فوری طور پر کہیں گے کہ ”لاہور چلے جاؤ”
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کسی مسئلے کی نشاندہی کریں تو یہ کہیں گے کہ ” لاہور چلے جاؤ”
یہاں تک کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے سامنے رکھا جائے ،اس پر عمل کرنے کی درخواست کی جائے تو یہ ڈیڑھ سال تک آپ کو چکر بہرحال دے سکتے ہیں لیکن آخر کار یہی کہیں گے کہ ”لاہور چلے جاؤ”
واقعہ یہ ہے کہ اگر ضلع جہلم کی اہم پوسٹ پر بیٹھ کر یہی بات کہنی ہے تو انیسویں گریڈ کے انسٹھ سالہ باریش شخص کو انتظامیہ کیوں خراب کر رہی ہے،یہ کام تو ایک درجہ چہارم کا ملازم بڑی آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے،
لہذا انتظامیہ سے استدعا ہے کہ انیسویں گریڈ کے سرکاری افسر سے کوئی اور کام لیا جائے،اگر کوئی اور کام نہیں تو انہیں دریائے جہلم کی لہریں گننے پر لگا دیا جائے تاکہ شام تک یہ تو معلوم ہو سکے کہ دن بھر کتنی لہریں ابھریں اور کتنی گم ہوئیں،اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو اس قابل احترام شخص کو مناسب طریقے سے کہہ دیا جائے کہ ” لاہور چلے جاؤ”