جہلم

جہلم کے استاد کی کہانی

آپ بیتی اور وہ بھی خود نوشت سوانح حیات،
پھر لکھنے والا استاد ہو تو مزہ دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا ہو جاتا ہے،

گورنمنٹ ڈگری کالج دینہ کے سابق پرنسپل پروفیسر محمد ارشد کی آپ بیتی ”زمین زاد“ بک کارنر جہلم نے چھاپی ہے،
کتاب خریدی،

جہلم
پڑھنے کے بعد اس پر تبصرہ لکھنے کا ارادہ کیا،
ان سے میری ملاقات نہیں،سوچا ان کے بارے میں لکھنے سے پہلے ملاقات کر لوں،
نومبر کے پہلے ہفتے میں ”پنج گرائیں“کے ایک دوست سے رابطہ کیااور دو چار روز میں ان سے ملنے کا پروگرام بنایا،
لیکن ملنے سے قبل مذکورہ دوست نے فون پر پروفیسر ارشد کی وفات کی اطلاع دی،افسوس ملاقات نہیں ہو سکی۔
پروفیسر محمد ارشد کی خود نوشت سوانح حیات ایک ایسے استاد کی کہانی ہے،
جس نے ساری زندگی علم نوردی میں گزاری یا جہلم گردی میں گزاری،
چنانچہ یہ کتاب ان کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ علم بیتی اور جہلم بیتی بھی ہے،
کیونکہ اس میں گزشتہ ساٹھ سالہ جہلم کی تحریری جھلکیاں موجود ہیں،
اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کے تجربات و حوادث اور صاحبان علم و دانش پر بھی مصنف نے نقد تبصرے کیے ہیں،
جہلم

معاصرین پر لکھنا کوئی آسان کام نہیں لیکن مرحوم نے اسے اپنے فن سے نمٹایا ہے،
اگر نثر کی بات کریں تو وہ اردو میں ایم فل ہونے کی وجہ سے اپنی زبان پر دسترس رکھتے تھے،
کتاب میں قومی زبان کو انہوں نے خوب برتا،
بلکہ کئی جگہ پر پنجابی الفاظ مثلاََچھانگا،شہدے،شریک اور کڑیاں کھاندو وغیرہ انہوں نے کمال مہارت سے استعمال کیے،
یہی وجہ ہے کہ قاری مطالعہ کے دوران تناؤ محسوس نہیں کرتا بلکہ زبان کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے،
بہرحال صاحب کتاب نے اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ جہلم کی تاریخ،سماج اور شخصیات کو موضوع بنایا ہے،
یعنی ”زمین زاد“ کی شکل میں انہوں نے اپنی زمین کا مقدمہ لکھا ہے،گویا زمین زادہ ہونے کا حق ادا کیا ہے،

اپنا تبصرہ بھیجیں