محترم راجہ یاور کمال صاحب!
پاکستان میں فروری 2021 تک فیس بک (Facebook) کے صارفین(users) کی تعداد چار کروڑ اکہتر لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
ماہرین کے مطابق یہ تعداد 2022 ء کی ابتداءمیں ہی ساڑھے پانچ کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔
فیس بک پردانشور،صاحب علم، نیک سیرت اور انسان دوست لوگوں سے لیکر چور اچکے،لچے لفنگے حتی کہ جرائم پیشہ تک لوگ موجود ہیں جو چوبیس گھنٹے اپنے فیس بک اکائنٹ سے سماج کو اپنے خیالات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
جہاں ایک طرف کچھ لوگ فیس بک پر انسان دوستی،سماجی فلاح اور اخلاقی اقدار کی تبلیغ میں مصروف ہیں تو وہیں پر جہلا کا ریوڑ فیس بک پر گندگی پھیلانے میں مصروف عمل ہے۔
جہلا کا یہ ٹولہ کبھی اسلام مخالف پوسٹیں لگا کر لوگوں کی دل آزاری کرتا ہے تو کبھی فرقہ واریت کو ہوا دینے والی تحریریں پوسٹ کر کے دوسروں کے جذبات کو مجروح کرتاہے۔
یہی نہیں بلکہ یہ لوگ اپنے سیاسی و ذاتی مخالفین کو گالیوں کی غلاظت سے نوازنے کے لئے بھی فیس بک کو ہی ذریعہ بننے کا شرف بخشتے ہیں۔
یوں فیس بک پر پھیلائی جانیوالی اس گندگی نے اس ٹیکنالوجی کے مثبت کردار کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔
اسی طرح آپ واٹس ایپ کو دیکھ لیں واٹس ایپ کے 2020 تک پاکستان کے اندر چار کروڑ باسٹھ لاکھ صارفین تھے جو اب چھے کروڑ تک پہنچ چکے ہیں۔
واٹس ایپ پر بھی لوگ مختلف گروپس بنا کر سماج کی فضا کو آلودہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے فیس بک،واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا کے اکاوئنٹ ہولڈر کا کوئی ریکارڈنہیں رکھا ہوا اس لیے جب بھی سوشل میڈیا پر کوئی بہیودگی یا جرم ہوتا ہے تو حکومتی اداروں کے لئے مجرم کو تلاش کرنے میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر باالفرض حکومتی ادارے مجرم کو تلاش کر بھی لیں(حالانکہ ایسی نوبت دس ہزار میں سے ایک کیس میں آتی ہے)تو سوشل میڈیا کی شہادت کو عدالت میں پیش کرنے کا طریقہ کار اس قدر مبہم ہے کہ ملزم کو مجرم ثابت کرنا ناممکن ہے۔سب سے بڑھ کر اس معاملے میں حکومتی تفتیشی ادارے یعنی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی کارکردگی ہے جن کے ساتھ ایک دفعہ واسطہ پڑنے کے بعد بندہ پنجاب پولیس کو اولیا ءکی جماعت ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں حکومت کے لئے چند تجاویز ہیں جو فیس بک،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کے زریعہ ہونیوالے جرائم کے ذمہ داروں کے گرد قانون کی گرفت مضبوط کرنے میں معاون ہوں گی۔
سب سے پہلے حکومت پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے ذریعے فیس بک،واٹس ایپ،ٹویٹر و دیگر سوشل میڈیا صارفین کی باقاعدہ بائیو میٹرک رجسٹریشن کرے تاکہ حکومت کے پاس ریکارڈ مرتب ہو جائے کہ کس نام کا سوشل میڈیا اکاوئنٹ کس کی ملکیت ہےاور ہر سوشل میڈیا ایپ کی ایک سال کی رجسٹریشن فیس کم از کم 100 روپے مقرر کرے۔اس طرح پی ٹی اے کے پاس سوشل میڈیا صارفین کا بائیومیٹرک ریکارڈ بھی مرتب ہو جائے گا اور ہر سوشل میڈیا ایپ پر سالانہ سو روپے فیس رکھنے سے حکومت کو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں ملیں گے۔صرف فیس بک اور واٹس ایپ کے صارفین کی تعداد دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لہذا ان دس کروڑ صارفین سے سو روپے سالانہ فیس لی جائے تو یہ آمدن دس ارب سے زائد ہو جائے گی اور باقی سوشل میڈیا ایپس کو شامل کرنے سے آپ آمدنی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ فیس بک پیجز کی رجسٹریشن کا طریقہ کار اور فیس بھی طے کی جائے۔واٹس پر دس لوگوں سے زائد ممبران پر مشتمل گروپ کو کمرشل گروپ قرار دیا جائے۔اس کے لئے پی ٹی اے کمرشل گروپ کے ایڈمنز کے ذریعے واٹس ایپ کمرشل گروپس کی رجسٹریشن کرے اور ان کمرشل گروپس کی سالانہ فیس کم از کم ایک ہزار روپے ہونی چاہئیے۔اگر پی ٹی اے ایک کروڑ کمرشل واٹس ایپ گروپ رجسٹر کرتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ حکومت کو کتنی آمدن ہو گی۔اگر مقررہ تاریخ پر کوئی صارف یا گروپ ایڈمن اپنی فیس جمع نہیں کراتا تو اس کا سوشل میڈیا اکاونٹ یا واٹس ایپ گروپ فوری طور پربند کر دیا جائے اور رجسٹریشن کے بغیر چلنے والے سوشل میڈیا اکاونٹ فورآ بند کر دئیے جائیں۔
پی ٹی اے ہر صارف کی فیس بک وال اور واٹس ایپ کمرشل گروپ میں شئیر کیے جانے والے مواد تک رسائی رکھتے ہوئے کم از کم ایک سال تک اسے محفوظ رکھے اور اگر کسی بھی عدالت کو کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی کمرشل واٹس ایپ گروپ یا فیس بک وال کا مواد چاہئیے ہو تو پی ٹی اے متعلقہ مواد بلا تاخیر عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہو۔
سائبر کرائمز سے متعلق پاکستان میں پہلے سے قوانین موجود ہیں مگر وہ ناکافی اور نامکمل ہیں کیونکہ جب تک حکومت کے پاس سوشل میڈیا صارفین کا ریکارڈ بذریعہ رجسٹریشن موجود ہی نہیں ہو گا تو جرائم کی روک تھام ممکن ہی نہیں ،چونکہ آج کی دنیا میں سوشل میڈیا اکاونٹ مکان،زمین اور گاڑی کی طرح باقاعدہ پراپرٹی بن چکا ہے لہذا دیگر پراپرٹیز کی طرح سوشل میڈیا کی بھی رجسٹریشن ضروری ہےاور سوشل میڈیا پر ہونیوالی بے ہودگی پر قابو پانے کے لئے اس پر نشر ہونیوالے مواد کا ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے۔یہ تجاویز حتمی نہیں ہیں اس مسئلہ پر ماہرین کی رائے لے کر اس سے بہتر حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے۔ان تجاویز یا جو بھی حکمت عملی تیار کی جائے اسے جلد از جلد قانون سازی کے زریعے ملک میں نافذ کیا جائے تاکہ عوام سوشل میڈیا پر ہونیوالی درندگی سے محفوظ رہ سکیں۔
جناب راجہ یاور کمال صاحب !
یوں تو ہمارے ضلع جہلم میں وفاقی وزیر بھی موجود ہیں لیکن آپ کو یہ کھلا خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کے جذبےسے سیاست میں آئے ہیں اس لئے آپ بہتر طریقے سے اعلی حکومتی عہدیداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرا کر باقاعدہ قانون سازی کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ جیسا باصلاحیت اور قابل سیاست دان ہی ملک و قوم کی بہتری کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھا سکتا ہے۔
منجانب: راجہ سہیل شفیق ایڈوکیٹ