آزادی کسےکہتے ہیں؟
آزادی زندگی اور ارتقاء کا لازمی جزوہے۔ یعنی ہر ذی روح چاہے وہ نبات ہو ،حیوان ہویا انسان ، بہر صورت آزادی کا محتاج ہے۔
آج کل ملک خداداد میں آزادی،خود مختاری اورامریکی غلامی کی بحث ہر سطح پر سنائی دیتی ہے۔
آزادی کیا ہے؟
یعنی کوئی رکاوٹ آپ کے مقصد میں حاءل نہ ہو۔
آزاد انسان،وہ ہیں جو اپنی نمو اورارتقاء کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ ایسے انسان ہوتے ہیں جو رکاوٹوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دیتے۔
آزادی دو طرح کی ہوتی ہے۔ایک سماجی آزادی یعنی دوسرے اسکو محبوس نہ کریں، اسے اپنا خادم نہ بنا لیں، اسے غلام نہ بنا ئیں۔ اسکی فکری اور جسمانی قوتوں کو صرف اپنے منافع اور مفاد کے لیے استعمال نہ کریں۔
دوسری معنوی آزادی ہے یعنی انسان میں شہوت ہوتی ہے، غضب اور غصہ ہوتا ہے، حرص و طمع ہوتی ہے، جاہ طلبی اور زیادہ کی لالچ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عقل کا مالک بھی ہوتا ہے، فطرت رکھتا ہے، اخلاق وجدان کا حامل ہوتا ہے۔
انسان معنوی لحاظ سے ایک آزاد مرد ہو سکتا ہے تاہم ممکن ہے کہ ایک غلام مرد ہو۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ انسان اپنی حرص کا بندہ ہو، اپنی شہوت کا غلام ہو، اپنے غصے کا اسیر ہو، جاہ طلبی نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہو یاممکن ہے وہ ان سب چیزوں سے آزاد ہو۔
مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسان میں دراصل دو ”میں ” حاکم ہیں۔ ایک انسانی ”میں ” اور دوسری حیوانی ”میں ”۔
مولانا روم نے ”مجنوں اور اونٹنی” نامی داستان میں منفرد اور اعلیٖ انداز میں انسان کے اس اندرونی تضاد کے مسئلے کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ ”مجنوں نے اپنے مقصد کی خاطراونٹنی کو تیزی سے دوڑانے کے لیے کہ اونٹنی کا بچہ راستہ میں تاخیر کا سبب نہ بنے،اس بچے کو گھر میں بند کر دیا اور اونٹنی پر سوار ہو کے چل دیا۔ لیلی کے خیال نے راستے میں مجنوں کو بے خود کر دیا۔ دوسری طرف اونٹنی کے بھی تمام تر حواس اپنے بچے میں مشغول تھے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک سرے پر اونٹنی کا بچہ تھا اور دوسرے سرے پر لیلی کا گھر۔ جب تک مجنوں اونٹنی کی لگام کو مضبوطی سے تھامے رکھتا، اس وقت تک اونٹنی اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہتی ،لیکن جب مجنوں کے حواس اپنی معشوق کی طرف متوجہ ہوجاتے تو اونٹنی کی مہار اس سے چھوٹ جاتی اور اونٹنی آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف پلٹنے لگتی۔ مجنوں کو ہوش آتا تو وہ دیکھتا کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے۔ وہ اونٹنی کو واپس پلٹاتا اور ایک بار پھر اپنے سفر کا آغاز کرتا۔ الغرض یہ عمل کئی بار دہرایا گیا۔
اگر آپ اپنی روح کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ شکم پرست ہوں، زن پرست ہوں اور آپ کی روح آزاد ہو۔اگر آپ واقعی آزاد ہونا چاہتے ہیں تو اپنی روح کو آزاد کیجیے۔حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
” لالچی ہونا غلامی سے بدتر ہے”(نہج البلاغہ- کلماتِ قصار 180)
آزاد مرد یعنی ایسا مرد جس نے قرآن کی اس صدا کو قبول کیا ہے ” الا نعبد الا اللہ” ہم اللہ کے سوا کسی چیز کی، کسی فرد کی، کسی طاقت کی پرستش نہیں کرتے۔ اسی صورت میں وہ معاشرے کو آزادی فراہم کر سکتا ہے۔