رینا ورما

بھارتی شہری رینا ورما طویل انتطار کے بعد اپنے آبائی گھر راولپنڈی پہنچیں

مہاراشٹر کے شہر پونے کی رہائشی 90 سالہ رینا ورما آخر کار پاکستان کے شہر راولپنڈی پہنچنےمیں کامیاب ہو گئیں۔ وہ گزشتہ 75 سالوں سے پاکستان کے اس شہر میں واپس آنے کے لیے تڑپ رہی تھیں۔

انہوں نے اپنے آبائی گھر پہنچنے پر کہا کہ ان کے والد نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کر کے یہ گھر بنایا تھا۔ جس کو دوبارہ دیکھنے کا خواب وہ دیکھتی آئی تھیں۔

راولپنڈی آنے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ گلی میں قدم رکھتے ہی ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔

مقامی لوگوں نے 90 سالہ رینا ورما کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور وہ اپنے استقبال سے بہت متاثر ہوئیں۔

پاکستان اور انڈیا کی تقسیم سے کچھ دن قبل رینا ورما کا خاندان راولپنڈی کے علاقہ ’پریم نواس‘ کو چھوڑ کر انڈیا چلا گیا ،جسے اب کالج روڈ کہا جاتا ہے۔

راولپنڈی آمد سے قبل کیا ہوا:

2021 میں، وہ سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہو گئیں جب انھوں نے ایک انٹرویو میں راولپنڈی کےچھوڑے ہوئے گھر کے بارے میں بہت دکھ بھرے لہجے میں بات کی تھی۔

چنانچہ انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب نامی فیس بک گروپ سے وابستہ لوگوں نے راولپنڈی میں ان کے آبائی گھر کی تلاش شروع کی اور آخر کار ایک خاتون صحافی کو بھارتی خاتون کا گھر مل گیا۔ رینا ورما اسی وقت پاکستان آناچاہتی تھیں لیکن کووڈ کی وبا کی وجہ سے وہ نہیں آسکیں۔

تاہم، اس سال مارچ میں انھوں نے پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دی، جومسترد کر دی گئی۔

رینا کا کہنا ہے کہ ویزا مسترد ہونے سے وہ کافی دلبرداشتہ ہوئیں۔

اگرچہ رینا دوبارہ ویزا کے لیے اپلائی کرنے کا ارادہ کر رہی تھیں کہ ان کی کہانی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر تک پہنچ گئی، حنا ربانی نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاررینا کے گھر بھیجے، اور انھیں ان کی درخواست پر کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

رینا نے بتایا‘جب مجھے پاکستان کے سفارت خانے سے فون آیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے مجھے آکر ویزا لینے کو کہا۔ یہ سب کچھ چند دنوں میں ہوا۔‘

لیکن پھر ان کے بیٹے کی موت اور شدید گرمی کی وجہ سے انہوں نے مزید انتطار کیا۔

اور آخر کار16 جولائی کو وہ پاکستان پہنچ گئیں۔

منزل مل گئی:

تمام کوششوں کے بعد یوں ہوا کہ 20 جولائی کو آخر کار رینا اپنے آبائی گھر پہنچ گئیں۔

رینا ورما نے اس موقع پر جذبات بھرے لہجے میں کہا کہ

‘میں اس لمحے کو اپنے خاندان کے ساتھ شئیر کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ سب اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ میں یہاں آکر خوش ہوں، لیکن میں آج بہت تنہا محسوس کر رہی ہوں۔

رینا نے بتایا کہ یہ وہی جگہ ہے جسے 1947 کے موسم گرما میں انھوں نے راولپنڈی میں چھوڑا تھا۔ انھوں نے اور ان کی بہنوں نے بہرحال کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ واپس نہیں آ سکیں گی۔

رینا مزیدبتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نے کبھی بھی بھارت میں الاٹ ہونے والا گھر قبول نہیں کیا جو انھیں مہاجرین کے طور پر دیا جا رہا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر انھوں نے یہ گھر لے لیا تو وہ پاکستان میں اس گھر پر اپنا دعویٰ کھو دیں گی جسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔

رینا نے اپنی آبائی گلی میں جونہی قدم رکھا تو مقامی لوگوں کے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ اور انہیں اٹھا لیا،ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔

رینا نےچند گھنٹے اپنے آبائی گھر کے اندر قیام کیا۔

رینا ورما نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ گھر کا زیادہ تر حصہ اب بھی پہلے جیسا ہی ہے۔ ٹائلیں، چھت، آگ کی جگہ، سب کچھ ویسا ہی ہے اور یہ دیکھ کر انھیں اپنی زندگی کے وہ خوبصورت لمحات یاد آ گئے ہیں جو انھوں نے یہاں گزارے تھے۔ انھیں اپنے رشتے دار بھی یاد آئے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

رینا نے کہا کہ ان کا دل اگرچہ رو رہا ہے لیکن وہ شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے گھر کو دوبارہ دیکھنے کے لیے زندہ ہیں۔

جب رینا ورماسے پوچھا گیا کہ وہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ جن لوگوں کے خاندان اور جڑیں سرحد کے اس پار ہیں انھیں اس طرح کی تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں