جہلم کی موبائیل فون انڈسٹری کے معروف بزنس مین غلام رسول کو راقم الحروف ذاتی طور پر جانتا ہے،جس نے بیس بائیس سال قبل مونہ پنڈ گاؤں میں کرکٹ کھیلتے کھیلتے صفر سے اپنی کاروباری زندگی کا آغاز کیا،ابتداء میں پبلک کال آفس قائم کیا،پھر انٹرنیٹ کارڈ وغیرہ کی فروخت شروع کی،اس کے بعد موبائیل فون کی تجارت سے منسلک ہو گئے،جہلم شہر کا رخ کرتے ہوئے انہوں نے چوک اہلحدیث جہلم میں اپنی Baseبنائی،محنت اور لگن سے اپنے کام میں مشغول ہوئے،مارکیٹ میں اپنی ساکھ بنائی،خرو فروخت میں ایمانداری اور اعتماد کے ہتھیار استعمال کیے،حلقہ احباب کو اپنی خدمات پیش کیں،اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دیں،بعدازاں اپنی موبائیل شاپ تھانہ سٹی جہلم کے باالمقابل منتقل کر دی۔
پھر یوں ہوا کہ 19جون کی رات کو نامعلوم چوروں نے چار پولیس تھانوں اور دو ڈی ایس پی صاحبان کے دفاتر کے سامنے جہلم شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی چوری کر ڈالی،بتایا جا رہا ہے کہ کم و بیش 6کروڑ سے زائد کا سامان چور لے اڑے اور سیلف میڈ بزنس مین ایک ہی رات میں صفر تک جا پہنچا،مذکورہ چوری کی واردات تو ہر حوالے سے قابل مذمت ہے لیکن اس واقعہ کو دیکھتے ہوئے جہلم پولیس کی کارکردگی بھی برے طریقے سے بے نقاب ہو گئی ہے،سوال یہ ہے کہ پولیس کی ناک کے نیچے شہر کے وسط میں اگر کوئی محفوظ نہیں تو پھر اس شہر میں کہاں محفوظ ہے،دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر سالوں کی محنت کی کمائی ایک ہی رات میں چور لے اڑیں تو پھر یہاں کون بزنس کرے گا،بہرحال یہ واقعہ جہلم پولیس کے لئے ایک امتحان ہے،ہم ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اس واقعہ کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے،اور غلام رسول کی زندگی کی جمع پونجی برآمد کرکے اسے بحفاظت واپس کیا جائے،تاکہ اس شہر میں بزنس مین کمیونٹی کا اعتماد بحال ہو سکے،ورنہ یہ مقدمہ حکمرانوں اور چارہ گروں کے سر ہے۔
اور بقول ساغر صدیقی
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے