بک کارنرجہلم

بک کارنرجہلم کی گولڈن جوبلی تحریر: نوید احمد

کتاب کے رسیا لوگ بک کارنر جہلم کے نام اور کام سے بخوبی آگاہ ہوں گے،یہ اشاعتی ادارہ پچاس برس کا ہو چکا ہے،چند روز قبل اس ادارے کی گولڈن جوبلی کے موقع پر جملہ مصنفین اور دیگر شرکاء کے ہمراہ ایک خوبصورت شام منائی گئی،جہاں مقررین نے بک کارنر کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا۔

اگر دیکھا جائے تو اس ادارے کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،پہلا دور 1973ء میں آنہ لائبریری سے لے کر اس کے بانی شاہد حمید کی وفات تک مشتمل ہے،جس دوران شاہد حمید نے ادارے کو اپنے خون پسینے سے سینچا،کم قیمت پر کتابیں مہیا کر کے مقامی لوگوں میں مطالعے کا شوق پیدا کیا،محنت کا ہنر آزمایا،اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ ایک تناور درخت بن گیا،یہ ان کی محنت اور جانفشانی کا ثمر تھا کہ ادارہ ایک چھوٹی دکان سے بہت بڑے شوروم تک جا پہنچا۔

دوسرے دور کا آغاز بانی ادارہ کی وفات سے شروع ہوا،جب ان کے صاحبزادوں امر اور گگن نے اپنے والد کے علمی ورثے کو ایک مشن کے طور پر جاری رکھنے کا عزم کیا،دونوں بھائیوں نے جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام دستیاب ذرائع استعمال کیے،شائع ہونے والی کتابوں کو نفاست اور انفرادیت کا جامہ پہنایا،قاری کی جیب اور جمالیاتی ذوق کا خیال رکھا،مصنفین کے رشحات علمی کو ایک امانت کے طور پر پڑھنے والوں کی نذر کیا،پھر سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے لکھاری اور قاری کا براہ راست تعلق قائم کیا،یہی وجہ ہے کہ بک کارنر جہلم کے شوروم کا جب دورہ کریں تو وہاں گاڑیوں کی طرح کتابیں قطار اندر قطار کھڑی نظر آتی ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے کہ کتابیں قارئین سے باتیں کر رہی ہیں ”ادھر آئیں، ادھر آئیں“

بہرحال دونوں بھائیوں نے بک کارنر کو اوج کمال تک پہنچا دیا ہے،آج دنیا بھر میں یہ اشاعتی ادارہ جہلم کی پہچان بن چکا ہے،ادارے کی گولڈن جوبلی کے موقع پر منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں،خدا کرے علم و ادب کی آبیاری کرنے والا یہ ادارہ سدا قائم و دائم رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں