جنگِ آزادی

جنگ آزادی میں سامراجیت کے خلاف اہل جہلم کا جذبۂ حریت آخری قسط

جنگِ آزادی1857 ء کی داستان
تحریر : انجم سلطان شہباز

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔

زخمیوں کی عیادت کے بعد ڈپٹی کمشنر اپنے بنگلے پر چلا گیا اور آج کی کارروائی کی رپورٹ حکام بالا کو بھیجی اس کی فیلڈ سے عدم موجودگی کے دوران کئی ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔
چار بجے کے قریب کرنل گیرارڈ نے 14رجمنٹ کے سکھ سپاہیوں اور24رجمنٹ کے جوانوں کو توپخانے کے گولوں کے کور میں سعیلہ کی جانب بڑھنے کا حکم دیا۔سعیلہ میں سپاہیوں نے شدید مزاحمت کی اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی تاہم گیرارڈ کے سپاہی سعیلہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔کرنل گیرارڈ توپوں کو سعیلہ کی دیواروں کے بالکل پاس لے آیا جہاں ایک گن کے ساتھ تمام گھوڑوں کو اندر سے باغی سپاہیوں نے فائر کرکے بھون ڈالا۔کرنل گیرارڈ نے یہ توپ وہیں چھوڑی اور باقی توپیں پیچھے ہٹا لیں۔اس کے بعد کچھ سپاہی گھوڑے لے کر اس توپ تک پہنچے اور اس توپ کو کھینچ کر لے جانے والے ہی تھے کہ سعیلہ میں بیٹھے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے پھر گھوڑوں کو مارڈالا۔توپ خانے کے پیچھے ہٹنے سے فریقین پر مختلف اثرات مرتب ہوئے۔اس وقت 24رجمنٹ کے جوانوں کے پاس ایمونیشن ختم ہورہا تھا اسلئے سب سے پہلے 24 رجمنٹ کے جوانوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم ملا اس کے بعد سکھ سپاہیوں نے پیچھے ہٹنا تھا اور آخر میں کیپٹن میکفرسن (Macpherson) کے دستے نے پیچھے آنا تھا جو توپ کی واگزاری کیلئے گیا تھا مگر ناکام رہا تھا۔لیفٹیننٹ بٹائے 30پولیس جوانوں کے ساتھ توپخانے کی مدد کو پہنچا تھا اور اس نے انھیں پوزیشن میں بٹھا کر دو توپیں پیچھے ہٹانے میں مدد دی تھی۔لیفٹیننٹ کک(Cook)نے کہا کہ ان کے پاس ایمونیشن ختم ہورہا ہے۔ بٹائے نے فائرنگ کرتے رہنے کا حکم دیالیکن جب اس نے گورے سپاہیوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو خود بھی پسپائی اختیار کی۔ اس کے ساتھ سعیلہ میں بیٹھے ہوئے سپاہی بڑی احتیاط سے نکل کر اس توپ تک پہنچے اور انھوں نے پسپا ہوتی ہوئی فوج پر اس توپ سے گولے داغنا شروع کردیے۔غروب آفتاب تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔

فوج واپس آگئی اور اگلے روز حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تاہم یہ وقفہ باغیوں کیلئے کافی تھا۔رات کی تاریکی میں وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی شکل میں سعیلہ سے نکل گئے۔ بڑا دستہ 250افراد پر مشتمل تھا وہ نالہ گھان میں سے روہتاس کے نیچے سے گزرتا ہوا ، شاہراہ اعظم پار کرکے مگلہ(منگلا) سے مہاراجہ کشمیر کے علاقے میں داخل ہوگیا۔یہاں دریا پر تین کشتیاں تھیں جن کے پاس کوئی ملاح تھا نہ کھینے کیلئے پتوار یا بمبو۔بندوق کے بٹوں کو پتوار کی طرح استعمال کرکے یہ سپاہی پار اترے۔اس دوران ایک کشتی غرق ہوگئی اور اس پر سوار سپاہی ڈوب گئے۔تاہم موگلہ کے لوگوں نے ان میں سے زیادہ تر کو بچا لیا۔150کے قریب سپاہی بچ جانے میں کامیاب رہے۔کرنل گیرارڈ نے لیفٹیننٹ لنڈ (Lind)کو ان کا تعاقب کرنے کا حکم دیا۔اس نے دس میل تک ان کا تعاقب کیا اور پھر گرمی اور جوانوں کے تھکن کی وجہ سے رک گیا۔تاہم باغی سپاہی اس وقت صرف پانچ میل کی دوری پر پناہگزیں تھے۔
سعیلہ کے باقی ماندہ باغی سپاہیوں نے افسروں کی کشتیوں میں فرار ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے ان کو پکڑ لیا۔کچھ سپاہیوں نے دریائی جزیرے میں چھپنے کی کوشش کی اور پکڑے گئے۔کچھ دریا کو تیر کر پارکرنے کی کوشش میں غرق ہوگئے۔باقی دو دو تین تین کے گروپ والے بھی پکڑے گئے اور چند ایک کے علاوہ باقی سب کو موت کی سزا دی گئی۔
7جولائی1857ء کی صبح 14 رجمنٹ کے جوانوں کی تعداد500تھی جن میں اسے144لڑائی میں مارے گئے۔19نے ہتھیار ڈال دیے۔25ڈوب گئے۔181دریا کے پار بھاگے جن میں سے138گرفتار ہوئے۔23لوگوں کو پولیس نے مارا اور108کو موت کی سزا دی گئی۔
8جولائی کو حکام بالا سے کوئی آرڈر نہ آیا۔ سپرنگ اس لڑائی میں مارا گیا تھا جب کہ ایلس شدید گھائل تھا۔اس حوالے سے بریگیڈئیر کی غلطی تھی جس نے کامل دو ماہ تک ان سپاہیوں کو غیر مسلح نہیں کیا تھا۔ جب کہ ان کو کمزور کرنے کیلئے دو کمپنیاں راولپنڈی بھیج دی گئی تھیں۔
راوی بیان کرتا ہے:
’’جب یہ کارروائی شروع ہوئی تو مسٹر موہن نے مجھے کہا کہ میں انگلس کے گھر چلا جاؤں جو قلعہ جہلم سے دو اور چھاؤنی سے ڈیڑھ میلدور تھا۔لیکن میں نے قلعے میں جانے کو ترجیح دی۔مشنری کو بھی محفوظ مقام پر جانے کا حکم ملا جو رائکس کے گھر تھے اور ایڈورڈ وہاں سخت علالت میں مبتلا تھا۔میں منکٹن(Monckton) کے ساتھ تیزی سے وہاں گیا تاکہ انھیں قلعے میں بھیج سکوں۔مسٹر جونز اور موہن نے سب کو اس صورت حال سے خبردار کیا اور سب قلعے کی جانب بڑھے۔بعد میں ہم نے دیکھا کہ مشنری کے مبلغ میاں، بیوی اور ان کے بچے کو کچہری کے نزدیک بے رحمی سے مار ڈالا گیا تھا۔میں منکٹن کی طرف بھاگا جو رائکس کے گھر سے آکر درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر بپھرے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہاں س میں قلعے کی طرف بھاگا اور جونز کو بھی اسی جانب جاتے دیکھا جس کی حالت مردوں سے بد تر تھی۔میں اپنی جان بچانے کیلئے بھاگ کر قلعے میں جا پہنچا اور معجزانہ طور پر بچ نکلا کیوں کہ باغی مجھ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھے ۔ وہ گھوڑوں پر سوار ادھر ادھر جارہے تھے۔میں نے انھیں دیکھ لیا تھا لیکن اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو میں زندہ نہ ہوتا۔میرا گھر بھی لوٹ لیا گیا تھا۔ڈاکٹر گراہم شور شرابا سن کر اپنی بیٹی کے ساتھ بگھی کی طرف لپکا اوربد قسمتی سے اس نے قلعے میں جانے کا عوامی راستہ اختیار کیا۔ گھڑ سواروں نے اسے گولی مار کر ختم کردیا۔اس کی بیٹی قلعے میں آگئی۔ گراہم کی سٹاف نرس، بیوی اور دو اور خواتین بگھی میں بیٹھ کر قلعے میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔بشپ کو بھی قتل کردیا گیا تھا تاہم مستورات کو زندہ چھوڑ دیا گیا تھا۔بریگیڈیئر برنڈ(Brind) کو بھی ایک گہرا اور مہلک گھاؤ لگا اور وہ مرگیا(برنڈ سیالکوٹ میں مارا گیا تھا)۔
کچہری اور میگزین کو جلا کر خاکستر کردیا گیا۔میں قلعے کے شمالی برج میں کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور جب میگزین کو جلایا اور اڑایا گیا تو یہ ایک خوفناک منظر تھا۔اس کے بعد باغی سپاہیوں نے تمام گھوڑے، بگھیاں اور گھوڑا گاڑیاں جمع کیں اور ہمارے بنگلوں سے سامان لوٹ کر ان میں بھر لیا۔سرکاری اونٹ بھی ان کے ہتھے لگ گئے اور انھوں نے ان پر بھی قیمتی سامان لاد لیا۔چار بجے انھوں نے وہاں سے کوچ کیا ۔ مجھے گوجرانوالہ جانے کا حکم تھا ۔ روانگی سے قبل یہ مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ وہ ایڈورڈ کا خچر اور میرا پیاراساتھی، میرا کتا چارلی بھی لے گئے۔میں اپنے گھر گیا اس کی کھڑکیاں ،دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ فرنیچر توڑ دیا گیا تھا۔ کتابیں اور کاغذات ہر جانب بکھرے ہوئے تھے۔پہننے کیلئے کوئی چیتھڑا تک نہ چھوڑا گیا تھا۔ تاہم میرے گھر کی حالت ان گھروں سے بہتر تھی جہاں بالکل صفایا کردیا گیا تھا اور ایک چمچ تک بھی نہ چھوڑی گئی تھی۔خدا کا شکر ہے کہ میری جان بچ گئی تھی۔جب بھی وہ وقت یاد کرتا ہوں خوف سے کانپنے لگتا ہوں۔ میرے کتنے پیارے دوست بے رحمی اور درندگی سے مار ڈالے گئے۔مس گراہم اب میرے پاس ہے اور اس صدمے سے سنبھل چکی ہے۔
ختم شد
نوٹ: زیر نظر تحریر مورخ جہلم انجم سلطان شہباز نے خصوصی طور پر جہلم لائیو کے لیے لکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں