پاکستان میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کے قتل کے مقدمے کو جہلم کی عدالت سے لاہور منقتل کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا گیا ہے۔
سامعہ شاہد کے شوہر اور مدعی مختار کاظم نے اس مقصد کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے روبرو درخواست منتقلی کی درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں سامعہ شاہد کے شوہر اور مقدمہ کے مدعی مختار کاظم نے یہ دعویٰ کیا کہ مقدمہ کی پیروی کرنے پر انھیں اور مقدمہ کے گواہوں کے جان کو شدید خطرہ ہے۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ سامعہ کے والد شاہد اور پہلے شوہر شکیل سمیت دیگر ملزم بااثر افراد ہیں اور ان کی جانب سے سنگنیں نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بتایا گیا کہ سنگین نتائج کی دھمکیاں اور جان کی حفاظت کے لیے درخواست گزار کو بیرون ملک منتقل ہونا پڑا ہے۔
تاہم لاہور ہائیکورٹ آفس نے درخواست اس اعتراض کے ساتھ واپس کردی کہ مقدمہ کی منتقلی کے لیے ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ سے رجوع کیا جائے۔ درخواست گزار کے وکیل ملک اویس خالد نے درخواست دوبارہ دائر کی اور استدعا کی کہ اس کو اعتراض کے ساتھ سماعت کے لیے پیش کردیا جائے۔
پیر کو درخواست اعتراض کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس عبدالسیع خان کے روبرو سماعت کے لیے پیش کی گئی۔
جسٹس عبدالسیع خان نے درخواست پر سماعت سے معذوری کی اور اس سفارش کے ساتھ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی کہ اس نوعیت کی درخواست پر سماعت کا اختیار چیف جسٹس ہائیکورٹ کے پاس ہے۔
سامعہ شاہد کے قتل کا مقدمہ جہلم کی ضلعی عدالت میں زیر سماعت ہے اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبیرین قریشی مقدمہ پر سماعت کررہی ہے۔
سامعہ شاہد کے شوہر کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ اس سال جولائی میں منگلا کنٹونمنٹ پولیس سٹیشن میں درج ہوا تھا اور اس مقدمہ میں مقتولہ کے والد شاہد اور سابق شوہر شکیل سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
مدعی مختار کاظم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی کہ انصاف کی کسی رکاوٹ کے بغیر فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ اس مقدمہ کو جہلم کی عدالت سے لاہور کی کسی بھی عدالت میں منتقل کردیا جائے۔
درخواست میں آئندہ کارروائی کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ کے روبرو 17 اکتوبر کو ہوگی۔