بلدیاتی انتخاب مکمل ہوئے مگر مکمل ہونے والا یہ مرحلہ کئی ایک کو نامکمل چھوڑ گیا اور شاید اب ان نامکمل کو مکمل ہونے کا دوبارہ موقع بھی میسر نہ آئے۔بلدیاتی انتخاب کا آخری عشرہ جس میں چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں سمیت خصوصی نشستوں کا چناؤ ہوا جہلم کی سیاست پر کچھ ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا جن کی وجہ سے جہلم کی سیاست کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو گیا ۔ ۔۔۔ نوابزادہ مطلوب مہدی کا بطور حکومتی ممبر اسمبلی اکیلا کھڑا رہنا۔۔۔۔۔ ضلع بھر کے قائدین کا ایک ہو جانا۔۔۔۔۔۔ حافظ اعجاز جنجوعہ کو ن لیگ کا ٹکٹ مل جانا۔۔۔۔۔۔ راجہ قاسم علی خان اور راجہ شوکت حسین سے ٹکٹ چھن جانا۔۔۔۔پھر بغاوت کا اعلان ہونا۔۔۔۔۔ ن لیگی امیدوار حافظ اعجاز کا ہار جانا۔۔۔۔۔راجہ قاسم علی خان کا چیئرمین منتخب ہو جانا۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ کے بعد سے اب تک اس جماعت میں ’’ٹانگیں کھینچنے ‘‘ کا مقابلہ جاری ہے۔ویسے تو سیاست میں ’’ٹانگیں توڑنے‘‘والا کام زیادہ ہوتا ہے مگر جب سیاستدان ’’ٹانگیں توڑنے‘‘کی عمر اور اختیار سے محروم ہو جاتے ہیں تو پھر وہ ’’ٹانگیں کھینچنے‘‘والا کام شروع کر دیتے ہیں۔ہمارے کچھ سیاستدان بھی اب اقتدار سے محروم ہو کر عمر کے اس حصّے میں پہنچ چکے ہیں جہاں اب وہ ’’ٹانگیں توڑنے ‘‘ سے تو رہے ۔۔۔مگر ’’ٹانگیں کھینچنے ‘‘ والا ہنر آزما رہے ہیں۔اس سیاسی مقابلے کی خاص بات یہ ہے کہ ٹانگوں کی کھینچا تانی کے اس کھیل میں جو کھلاڑی مقابلے میں ہیں وہ دو اپنی اپنی شکست کو بار بار یاد کر کے کہڑتے رہتے ہیں اور اب انکے لئے کوئی دوسرا کھیل کھیلنا ممکن بھی نہیں۔اس کھیل کے دونوں کھلاڑیوں میں سے ایک ’’تانگے والے ‘‘ ہیں اور دوسرے سے عوام ’’ تنگ‘‘ ہیں ۔ برحال جو بھی ہو ’’ٹانگیں کھینچنے‘‘ کا یہ کھیل اب تک جاری و ساری ہے۔مقابلے کی اس دوڑ میں ’’فتح و شکست‘‘ کس کا مقدر بنے گی یا پھرررررر دونوں کھلاڑی یہ کھیل کھیلتے تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے اور وکٹری اسٹینڈپر کوئی تیسرا کھڑا نظر آ جائے گا۔سیاسی میدان کے ان کھلاڑیوں کے جاری ’’ٹانگیں کھینچنے ‘‘کے اس کھیل میں کھیل کھیلنے سے زیادہ ’’شیخیاں‘‘ مارنے پر زور دیا جا رہا ہے ۔دونوں اطراف کے کھلاڑی اپنے اپنے حواریوں کی ہمدردیاں حاصل رکھنے کی خاطر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے ایسی ایسی ’’شیخیاں‘‘ مارتے ہیں کہ سننے والا کانوں میں انگلیاں دینے کی بجائے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔جہلم کے عوام میں شامل ہونے کے ناطے میں بھی کئی روز سے یہ کھیل دیکھ رہا ہوں ۔مجھے یہ کھیل دیکھ کر ایک ’’ کہانی‘‘ یاد آ گئی ۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔
ایک دفعہ ایک چوہدری ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ڈبے میں اس کا ہمسفر ایک بنگالی بابو تھا۔چوہدری ہٹا کٹا اور لمبا تڑنگا۔۔۔۔۔جبکہ بنگالی دبلا پتلا۔بنگالی اپنا صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ پر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا،اس سے اٹھ نہیں رہا تھا۔چوہدری یہ دیکھتے ہوئے اپنی سیٹ سے اٹھا اورآرام سے صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ پہ رکھ دیا۔اور بنگالی سے طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔اوئے بنگالیووووووو!!!!!!!’’کنک تے دودھ مکھن کھایا کرو،طاقت آؤندی اے۔۔۔۔۔۔مچھی چاول کھا کھا مکھی مارن جوگے وی نی۔(گندم ،دودھ اور مکھن کھایا کرو طاقت آتی ہے۔مچھلی چاول کھا کھا کے مکھی مارنے کے قابل بھی نہیں)۔۔۔۔بنگالی بے چارہ یہ سن کر چپ ہو رہا۔۔۔ تھوڑی دیر بعدبنگالی نے تازہ ہوا لینے کے لئے کھڑکی کھولنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔۔۔بہت زور لگایا مگر کھڑکی پھر بھی نہ کھلی۔۔۔۔۔چوہدری اٹھا اور آستین چڑھا کرزور لگا کر کھڑکی کھول دی اور پھر اس کو کہا کہ۔۔۔اوئے بنگالیوووووو!!!!!! ’’چاول دی بجائے کنک کھایا کرو،طاقت آؤندی اے‘‘(چاول کی بجائے گندم کھایا کرو طاقت آتی ہے)۔۔۔۔۔۔بنگالی پھر چپ رہا۔۔۔تھوڑی دیر بعد اسے بھوک لگی۔۔۔اس نے اپنا کھانے والا ٹفن کھولنے کی کوشش کی مگر اس کا ڈھکنا پھنسا ہوا تھا۔۔۔اسے زور لگاتا دیکھ کرچوہدری نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لیکرزور لگا کر ڈبہ کھولااس میں مچھلی چاول دیکھ کربولا۔۔اوئے ئے ئے ۔۔۔۔فیر مچھی تے چاول؟؟؟ تینوں میں وار وار کہہ رہیا واں کہ۔۔۔۔کنک تے دودھ مکھن کھایا کرو،طاقت آؤندی اے۔۔۔۔۔ (گندم ،دودھ اور مکھن کھایا کرو طاقت آتی ہے)
اب کی بار بنگالی کو غصہ آ گیا۔۔۔اس نے اٹھ کرگاڑی روکنے والے زنجیر کھینچنے کی کوشش کی تاکہ گاڑی روکے اورریل کا ڈبہ بدل سکے۔۔۔۔مگر وہ زنجیر بھی نہ کھینچ سکا۔۔۔۔۔۔وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ چوہدری یہ دیکھ کر اٹھا۔۔۔۔ایک جھٹکے سے زنجیر کھینچی۔۔۔۔۔گاڑی رک گئی۔۔چوہدری نے پھر بنگالی کو طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔’’ویکھیاں نے کنک دیاں طاقتاں۔۔۔۔توں وی کنک کھایا کر‘‘(دیکھی ہیں گندم کی طاقتیں۔۔۔۔تم بھی گندم کھایا کرو)۔۔۔۔۔۔ گاڑی رکی تو ریلوے پولیس آ گئی اور مسافروں سے پوچھنے لگی کہ زنجیر کس نے کھینچی تھی؟؟؟؟؟۔سب مسافروں نے چوہدری کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔پولیس والوں نے چوہدری سے وجہ پوچھی۔۔۔اب چوہدری کے پاس زنجیر کھینچنے کی کوئی وجہ ہوتی تو بتاتا۔۔۔۔۔پولیس نے بلا وجہ زنجیر کھینچنے کے جرم میں چوہدری کو گرفتار کے ہتھکڑی پہنا دی۔جب پولیس والے چوہدری کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے تو پیچھے سے بنگالی بابو نے آواز لگائی۔۔۔۔چوہدرررررری جی!!!!!!!!!!!!! ۔’’مچھلی چاول بھی کھا لیا کرو۔۔۔اس سے عقل آتی ہے‘‘۔چوہدری بے چارے کو ’’شیخیاں‘‘ مارنے کی سزا مل گئی۔اللہ کرے ’’ٹانگیں کھینچنے ‘‘ اور ’’شیخیا ں‘‘ مارنے والے بھی ’’ہوش کے ناخن‘‘ لیں۔ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی با نسری
Load/Hide Comments