میاں محمد بخشؒ

میاں محمد بخشؒ تحریر: نوید احمد

سانولے رنگ اور کمزور جسم کے مالک پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش آزاد کشمیر کے ضلع میر پور کے نواحی علاقہ کھڑی شریف میں مدفون ہیں،جہاں ان کا مزار پر انوار عقیدت مندوں کو ذہنی سکون پہنچاتا ہے وہیں ان کی شاعری روحانی فکر کے نئے دریچے کھولتی ہے.

میاں صاحب کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے اگرچہ مختلف آراء پائی جاتی ہیں تاہم محققین کی اکثریت اس رائے پر متفق ہے کہ میاں محمد بخش 1830 میں چک ٹھاکرہ (موجودہ کھڑی شریف) میں میاں شمس الدین کے ہاں پیدا ہوئے،آپ کے آباؤ اجداد ضلع گجرات کے علاقہ چک بہرام سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے،میاں صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی،اس کے بعد اپنے بڑے بھائی بہاول بخش کے ہمراہ سموال شریف کی درگاہ حافظ محمد علی کے استاد حافظ ناصر الدین سے قرآن،حدیث،فقہ،منطق اور دیگر دینی علوم کی تعلیم حاصل کی،

محققین نے اس بات پر بہت کم توجہ دی کہ میاں صاحب کا زمانہ سیاسی حوالے سے افراتفری کا دور تھا،انگریز برصغیر پاک و ہند پر قابض ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی سیاسی و سماجی حالت بہت ابتر تھی،اس دور پر آشوب میں دشوار گزار پہاڑی علاقے کے مکین کی تعلیمات آج بھی اگر رشدو ہداہت کا مرکز ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب اپنے زمانے سے بہت آگے تھے،میاں صاحب کا عارفانہ کلام مجازی رنگ میں عشق حقیقی کی داستان ہے،آپ کی کم و بیش اٹھارہ تصانیف ہیں جن میں ایک فارسی جبکہ دیگر پنجابی زبان میں ہیں،تاہم جس کتاب نے میاں صاحب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا وہ کتاب عربی ادب کی مشہور داستان الف لیلٰی سے ماخوذ سفر اعشق ہے جسے دنیا سیف الملوک کے نام سے جانتی ہے،یہ کتاب مصری شہزادہ سیف الملوک اور ایک حسین پری بدیع الجمال کے افسانوی عشق پر لکھی گئی ہے،مولانا روم کی روحانی فکر سے نسبت کی وجہ سے میاں محمد بخش کو رومیء کشمیر بھی کہا جاتا ہے،رومی ء کشمیرنے اس کتاب میں عشق حقیقی کے منفرد اسرار و رموز بیان کیے ہیں،سیف الملوک کے اشعار کی کل تعداد 9249 بتائی جاتی ہے ،پنجابی زبان میں لکھی جانے والی یہ کتاب تزکیہ ء نفس،معرفت و حکمت،حسن اخلاق اور رواداری جیسے موتیوں سے مالا مال ہے،پنجاب کے مختلف علاقوں کے الفاظ و تراکیب اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،اگرچہ دوسرے شعراء نے بھی اس افسانوی قصے پر طبع آزمائی کی ہے لیکن جو مقبولیت میاں محمد بخش کو ملی وہ کسی دوسرے داستان گو شاعر کو نصیب نہیں ہوئی،میاں صاحب نے 33 برس کی عمر میں سیف الملوک لکھی جو آج بھی خطہ ء پوٹھوار سمیت دیگر علاقوں میں سوزو گداز سے پڑھی ، سنی اور سنائی جاتی ہے،حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ اس کتاب میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور میاں صاحب کے مرشد اور بزرگ پیرے شاہ غازی کا حوالہ جا بجا ملتا ہے،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح خوبصورت انداز میں کی گئی ہے،

اپنے ایک حمدیہ شعر میں میاں صاحب رقمطراز ہیں۔

اول حمد ثناء الٰہی جو مالک ہر ہر دا

اس دا نام چتارن والا کسے میدان نہیں ہردا

انسانی کردار کے بارے میں میاں صاحب کا زبان زد عام شعر ہے کہ

دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے

انسان کی کوشش اور اختیار کے بارے میں میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ

مالی دا کم پانی دینا تے بھربھر مشکاں پاوے

مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے

مندرجہ بالا اشعار کلام میاں محمد بخش کے چند نمونے ہیں ورنہ سخن شناس کہتے ہیں کہ آپ کا ہر شعر اپنے اندر ایک داستان سموئے ہوئے ہے،

میاں محمد بخش 22 جنوری 1907 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور اپنے جد امجد پیرے شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں مدفون ہیں،تاہم ان کی تعلیمات زندہ و جاوید ہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں